Sunday, 8 December 2013

کڑی تنہائیوں کو ہمسفر کہتا رہا ہوں میں

کَڑی تنہائیوں کو ہمسفر کہتا رہا ہوں میں 
خیال یار! تُجھ کو مُعتبر کہتا رہا ہوں میں
کرایا شامِ فُرقت نے تعارف ایک نیا اُس کا
وہ ایک دریا کہ جسکو چشمِ تر کہتا رہا ہوں میں
وہاں بھی لوگ اپنی کِرچیاں چُنتے نظر آئے
جہاں کے پتّھروں کو بے ضرر کہتا رہا ہوں میں
نظر کے زاویے تبدیل کر دیتے ہیں کچھ چہرے
وہ قاتل تھا جِسے جان و جِگر کہتا رہا ہوں میں
صِلہ اب اور کیا مانگوں قتیلؔ! اپنی عبادت کا
یہی میری جنّت جِس کو گھر کہتا رہا ہوں میں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment