اک برگِ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ
میں پھر بھی جی رہا ہوں، مرا حوصلہ بھی دیکھ
ذرّے کی شکل میں مجھے سِمٹا ہُوا نہ جان
صحرا کے رُوپ میں مجھے پھیلا ہُوا بھی دیکھ
تُو نے تو مُشتِ خاک سمجھ کے اُڑا دیا
اب مجھ کو اپنی راہ میں بکھرا ہُوا بھی دیکھ
تیرے لیے تو صرف اشاروں کا کھیل تھا
مجھ کو جو پیش آیا ہے، وہ حادثہ بھی دیکھ
اوروں کے پاس جا کے مِری داستاں نہ پوچھ
جو کچھ ہے میرے چہرے پہ یہ لِکھا ہُوا بھی دیکھ
ہموار راستوں پہ مِرا ساتھ چھوڑ کر
آگے نکل گیا تھا تو اب راستہ بھی دیکھ
مرتضیٰ برلاس
میں پھر بھی جی رہا ہوں، مرا حوصلہ بھی دیکھ
ذرّے کی شکل میں مجھے سِمٹا ہُوا نہ جان
صحرا کے رُوپ میں مجھے پھیلا ہُوا بھی دیکھ
تُو نے تو مُشتِ خاک سمجھ کے اُڑا دیا
اب مجھ کو اپنی راہ میں بکھرا ہُوا بھی دیکھ
تیرے لیے تو صرف اشاروں کا کھیل تھا
مجھ کو جو پیش آیا ہے، وہ حادثہ بھی دیکھ
اوروں کے پاس جا کے مِری داستاں نہ پوچھ
جو کچھ ہے میرے چہرے پہ یہ لِکھا ہُوا بھی دیکھ
ہموار راستوں پہ مِرا ساتھ چھوڑ کر
آگے نکل گیا تھا تو اب راستہ بھی دیکھ
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment