Sunday 8 December 2013

کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں

کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
تُم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یُوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بُھول گئی ہوں
پُھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں
صدیوں سے مِرے پاؤں تلے جنّتِ انساں
میں جنّتِ انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں
جس ہاتھ کی تقدیس نے گُلشن کو سنوارا
اس ہاتھ کی تقدیر پہ آزُردہ رہی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اُجالا کہ اندھیرا
دل شُعلہ طلب تھا، سو بہرحال جلی ہوں

ادا جعفری 

No comments:

Post a Comment