کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا
میں جس کو ڈھونڈتا تھا مِرے آئینے میں تھا
چھڑکا جسے عدم کے سمندر پہ آپ نے
صحرا تمام خاک کے اس بُلبلے میں تھا
سُنتا ہوں سرنِگوں تھے فرِشتے تِرے حضور
میں، جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
ہیں ثبت مِرے دل پہ زمانے کی ٹھوکریں
میں ایک سنگِ راہ تھا، جس راستے میں تھا
کچھ بھی نہ تھا ازل میں بجُز شعلہ وجود
ہاں دُور تک عدم کا دُھواں حاشیے میں تھا
میں نے جو اپنا نام پکارا تو ہنس پڑا
یہ مجھ سا کون شخص مِرے راستے میں تھا
اب رُوح اعترافِ بدن سے ہے مُنحرف
اِک یہ بھی سنگِ میل مِرے راستے میں تھا
دانشؔ کئی نشیب نظر سے گزر گئے
ہر رِند آئینے کی طرح میکدے میں تھا
میں جس کو ڈھونڈتا تھا مِرے آئینے میں تھا
چھڑکا جسے عدم کے سمندر پہ آپ نے
صحرا تمام خاک کے اس بُلبلے میں تھا
سُنتا ہوں سرنِگوں تھے فرِشتے تِرے حضور
میں، جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
ہیں ثبت مِرے دل پہ زمانے کی ٹھوکریں
میں ایک سنگِ راہ تھا، جس راستے میں تھا
کچھ بھی نہ تھا ازل میں بجُز شعلہ وجود
ہاں دُور تک عدم کا دُھواں حاشیے میں تھا
میں نے جو اپنا نام پکارا تو ہنس پڑا
یہ مجھ سا کون شخص مِرے راستے میں تھا
اب رُوح اعترافِ بدن سے ہے مُنحرف
اِک یہ بھی سنگِ میل مِرے راستے میں تھا
دانشؔ کئی نشیب نظر سے گزر گئے
ہر رِند آئینے کی طرح میکدے میں تھا
احسان دانش
No comments:
Post a Comment