کبھی سراب کبھی ریگِ رائیگاں سے ہُوا
مجھے یقین ہمیشہ کسی گماں سے ہُوا
پڑاؤ جونہی کِیا میں نے نصف رستے میں
نئے سفر کا تہیّہ نئے مکاں سے ہُوا
بدل لِیا تھا ہواؤں سے میں نے پانی کو
بلند جونہی میں دریا کے درمیاں سے ہُوا
میں لوٹ آیا تعاقب میں نقشِ پا چھوڑے
تو ہمکلام کہیں جا کے آسماں سے ہُوا
چھپا لِیا تھا مجھے رات کی کہانی نے
میں بے نِشان مگر اپنی داستاں سے ہُوا
مجھے یقین ہمیشہ کسی گماں سے ہُوا
پڑاؤ جونہی کِیا میں نے نصف رستے میں
نئے سفر کا تہیّہ نئے مکاں سے ہُوا
بدل لِیا تھا ہواؤں سے میں نے پانی کو
بلند جونہی میں دریا کے درمیاں سے ہُوا
میں لوٹ آیا تعاقب میں نقشِ پا چھوڑے
تو ہمکلام کہیں جا کے آسماں سے ہُوا
چھپا لِیا تھا مجھے رات کی کہانی نے
میں بے نِشان مگر اپنی داستاں سے ہُوا
زاہد مسعود
No comments:
Post a Comment