Saturday 7 December 2013

حسن کو تھوڑا سا اسرار میں رہنے دیا جائے

حسن کو تھوڑا سا اسرار میں رہنے دِیا جائے
عشق کو اپنے ہی آزار میں رہنے دِیا جائے
راستہ جو کہ نکلتا ہے گلی کی جانب
کیا ضروری ہے کہ دیوار میں رہنے دِیا جائے
ہم نے مانا کہ اطاعت میں سہولت ہے مگر
جو رہے اس کو تو انکار میں رہنے دِیا جائے
آنکھ کو اشک کی تصویر بنانا ہے اگر
درد کو درد کے معیار میں رہنے دِیا جائے
یہ تو طے ہے کہ نیا شہر بسانا ہے مجھے
کیوں نہ تجھ کو دلِ مسمار میں رہنے دِیا جائے
میں رہوں یا نہ رہوں میرا ہیولٰی لیکن
ہو سکے تو  کہیں آثار میں رہنے دِیا جائے

زاہد مسعود

No comments:

Post a Comment