Saturday, 7 December 2013

صبح جب خیمۂ مہتاب کا دَر کھولے گی

صُبح جب خیمۂ مہتاب کا دَر کھولے گی
زندگی دیر سے سِمٹے ہوئے پر کھولے گی
حدِ اَفلاک مِرے خواب کو پامال نہ کر
ورنہ یہ نیند نئی راہگُزر کھولے گی
بند کلیوں کے تعاقب میں بھٹکتی ہوئی شب
پھر کبھی لوٹ کے آئی تو یہ گھر کھولے گی
روشنی آ تو گئی ہے پسِ دیوار، مگر
اپنی زنبیل کہیں پِچھلے پہر کھولے گی
شہر میں چاروں طرف پُھول کِھلانے کیلیے
اِک نہ اِک روز ہوا زادِ سفر کھولے گی

زاہد مسعود

No comments:

Post a Comment