Saturday 7 December 2013

عذاب دید میں ‌آنکھیں لہو لہو کر کے

عذابِ دِید میں ‌آنکھیں لہُو لہُو کر کے
میں شرمسار ہُوا تیری جستجُو کر کے
سُنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی، مگر پیرہن رفُو کر کے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرُو کر کے
اجاڑ رُت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دِید سے وضُو کر کے
کوئی تو حبس ہَوا سے یہ پوچھتا محسنؔ
مِلا ہے کیا اُسے کلیوں کو بے نمُو کر کے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment