Saturday 7 December 2013

کبھی جو چھیڑ گئی یاد رفتگاں محسن

کبھی جو چھیڑ گئی یادِ رفتگاں محسن
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن
ہوا نے راکھ اُ ڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں میرے خوابوں کی بستیاں محسن
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہو اس کی کھڑکیاں محسن
بجھا ہے کون ستارا کہ اپنی آنکھ کے ساتھ
ہوئے ہیں سارے مناظر دھواں دھواں محسن
نہیں کہ اس نے گنوائے ہیں ماہ و سال اپنے
تمام عمر کٹی یوں بھی رائیگاں محسن
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھیں جسے میرے کرچیاں محسن
کہیں سے اس نے بھی توڑا ہے خود سے ربطِ وفا
کہیں سے بھول گیا میں بھی داستاں محسن

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment