Wednesday 4 December 2013

کچھ مضطرب سی عشق کی دنیا ہے آج تک

کچھ مضطرب سی عشق کی دُنیا ہے آج تک
جیسے کہ حُسن کو نہیں دیکھا ہے آج تک
بس اِک جھلک دکھا کے جسے تُو گزر گیا
وہ چشمِ شوق محوِ تماشا ہے آج تک
یوں تو اداس غمکدۂ عشق ہے، مگر
اس گھر میں اِک چراغ سا جلتا ہے آج تک
جس کے خلوصِ عشق کے افسانے بن گئے
تجھ کو اُسی سے رنجشِ بے جا ہے آج تک
پرچھائیاں نشاط و الم کی ہیں درمیاں
یعنی وصال و ہجر کا پردا ہے آج تک
ویرانیاں جہان کی آباد ہوچکیں
جُز اِک دیارِ عشق کہ سُونا ہے آج تک
ساری دلوں میں ہیں غمِ پنہاں کی کاوشیں
جاری کشاکشِ غم دنیا ہے آج تک
ہم بیخودانِ عشق بہت شادماں سہی
لیکن دلوں میں درد سا اٹھتا ہے آج تک
پورا بھی ہو کے جو کبھی پورا نہ ہو سکا
تیری نگاہ کا وہ تقاضا ہے آج تک
تُو نے کبھی کیا تھا جدائی کا تذکرہ
دل کو وہی لگا ہوا کھٹکا ہے آج تک
تا عمر یہ فراقؔ بجا دل گرفتگی
پہلو میں کیا وہ درد بھی رکھا ہے آج تک

فراق گورکھپوری


No comments:

Post a Comment