Wednesday 4 December 2013

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
دل کی بستی خراب ہو کے رہی
عشق کا نام کیوں کریں بدنام
زندگی تھی عذاب ہو کے رہی
نگہِ شوخ  کا مآل نہ پوچھ
سر بسر اضطراب ہو کے رہی
تم نے دیکھا ہے مرگِ مظلومی
جانِ صد انقلاب ہو کے رہی
چشمِ ساقی، کہ تھی کبھی مخمور
خود ہی آخر شراب ہو کے رہی
تابِ نطارہ لا سکا نہ کوئی
بے حجابی، حجاب ہو کے رہی
حشر کے دن کسی کی ہر بیداد
کرمِ بے حساب ہو کے رہی
سامنے دل کا آئینہ رکھ کر
ہر ادا لاجواب ہو کے رہی
ہم سے فانیؔ نہ چھپ سکا غمِ دوست
آرزو، بے نقاب ہو کے رہی

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment