Monday 9 December 2013

جلا دیا شجر جاں کے سبز بخت نہ تھا

جلا دیا شجرِ جاں کے سبز بخت نہ تھا
کسی بھی رُت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا
جو خواب دیکھا تھا شہزادیوں نے پچھلے پہر
پھر اس کے بعد مقدر میں تاج و تخت نہ تھا
ذرا سے جبر سے میں بھی تو ٹوٹ سکتی تھی
مری طرح سے طبیعت کا وہ بھی سخت نہ تھا
اندھیری راتوں کے تنہا مسافروں کے لیے
دِیا جلاتا ہوا کوئی ساز و رَخت نہ تھا
مرے لیے تو وہ خنجر بھی پھول بن کے اٹھا
زبان سخت تھی لہجہ مگر کرخت نہ تھا
گئے وہ دن کہ مجھی تک تھا میرا دکھ محدود
خبر کہ جیسا یہ افسانہ لَخت لَخت نہ تھا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment