سرگوشئ بہار سے خوشبو کے در کھُلے
کس اسم کے جمال سے بابِ ہنر کھلے
جب رنگ پا بہ گِل ہوں، ہوائیں بھی قید ہوں
کیا اس فضا میں پرچمِ زخمِ جگر کھلے
خیمے سے دُور، شام ڈھلے، اجنبی جگہ
نکلی ہوں کس کی کھوج میں، بے وقت، سر کھلے
شاید کہ چاند بھول پڑے راستہ کبھی
رکھتے ہیں اِس امید پہ کچھ لوگ گھر کھلے
وہ مجھ سے دور خوش ہے، خفا ہے، اداس ہے
کس حال میں ہے، کچھ تو مرا نامہ بر کھلے
ہر رنگ میں وہ شخص نظر کو بھلا لگے
حد یہ کہ روٹھ جانا بھی اس شوخ پر کھلے
کھل جائے کن ہواؤں سے رسمِ بدن رہی
خلوت میں پھول سے کبھی تتلی اگر کھلے
راتیں تو قافلوں کی معیت میں کاٹ لیں
جب روشنی بٹی تو کئی راہبر کھلے
کس اسم کے جمال سے بابِ ہنر کھلے
جب رنگ پا بہ گِل ہوں، ہوائیں بھی قید ہوں
کیا اس فضا میں پرچمِ زخمِ جگر کھلے
خیمے سے دُور، شام ڈھلے، اجنبی جگہ
نکلی ہوں کس کی کھوج میں، بے وقت، سر کھلے
شاید کہ چاند بھول پڑے راستہ کبھی
رکھتے ہیں اِس امید پہ کچھ لوگ گھر کھلے
وہ مجھ سے دور خوش ہے، خفا ہے، اداس ہے
کس حال میں ہے، کچھ تو مرا نامہ بر کھلے
ہر رنگ میں وہ شخص نظر کو بھلا لگے
حد یہ کہ روٹھ جانا بھی اس شوخ پر کھلے
کھل جائے کن ہواؤں سے رسمِ بدن رہی
خلوت میں پھول سے کبھی تتلی اگر کھلے
راتیں تو قافلوں کی معیت میں کاٹ لیں
جب روشنی بٹی تو کئی راہبر کھلے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment