Monday 9 December 2013

عشاق نہ پتھر نہ گدا کوئی نہیں ہے

عشّاق نہ پتھر نہ گدا کوئی نہیں ہے
اب شہر میں سایوں کے سوا کوئی نہیں ہے
بچھڑے ہوئے لوگوں کا پتہ کون بتائے
رستوں میں بجز بادِ بلا کوئی نہیں ہے
میں اپنی محبت میں گرفتار ہوا ہوں
اس درد کی قسمت میں دوا کوئی نہیں ہے
بے بار چلا اب کے برس موسم گُل بھی
اس پھول کے کھلنے کی اَدا کوئی نہیں ہے
ہر آنکھ میں افسوس نے جالے سے تنے ہیں
ماحول کے جادو سے رہا کوئی نہیں ہے
امجدؔ یہ میرا دل ہے کہ صحرائے بلا ہے
مدت سے یہاں آیا گیا کوئی نہیں ہے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment