Monday, 9 December 2013

حادثے کیا کیا تمہاری بے رخی سے ہو گئے

حادثے کیا کیا تمہاری بے رخی سے ہو گئے
ساری دنیا کے لیے ہم اجنبی سے ہو گئے
کچھ تمہارے گیسوؤں کی برہمی نے کر دئیے 
کچُھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہو گئے
بندہ پرور، کھل گیا ہے آستانوں کا بَھرم
آشنا کچھ لوگ رازِ بندگی سے ہو گئے
گردشِ دَوراں، زمانے کی نظر، آنکھوں کی نیند 
کتنے دشمن، ایک رسمِ دوستی سے ہو گئے
زندگی آگاہ تھی صیّاد کی تدبیر سے
ہم، اسیرِ دامِ گل اپنی خوشی سے ہو گئے
اب کہاں اے دوست، چشمِ منتظر کی آبرو
اب تو ان کے عہد و پیماں ہر کِسی سے ہو گئے
ہر قدم ساغرؔ! نظر آنے لگی ہیں منزلیں
مرحلے کچھ طے مِری آوارگی سے ہو گئے

ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment