دل خون ہو تو کیونکر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدۂ تر سے
کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاؤ اس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حُدی خواں
یہ حسن یہ شوخی یہ تبسم یہ جوانی
اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے
خورشید تو کیا، غیرت خورشید ہوا ہے
وہ ذرہ جو ابھرا ہے تری راہگزر سے
نکلی نہ جو دیدار کی حسرت تو یہ ہو گا
سر پھوڑ کے مر جائیں گے دیوار سے ، در سے
سو رنج ہیں، سو شکوہ شکایات ہیں، لیکن
مجبور ہیں، کچھ کہتے نہیں آپ کے ڈر سے
صیاد! خدا خیر کرے اہل چمن کی
دیکھے ہیں فضاوں میں کچھ اڑتے ہوئے پَر سے
وہ روٹھ گئے ہم سے ، جدا ان سے ہوئے ہم
اب چھیڑ اٹھے گی نہ اِدھر سے نہ اُدھر سے
لوگوں کا حسد شعر کی شہرت سے بڑھے گا
خوف آتا ہے خود مجھ کو نصیرؔ اپنے ہُنر سے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment