تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت
کہا تو روٹھ گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی
حیات، رازِ سکوں پا گئی، ازل ٹھہری
ازل میں تھوڑی سی لرزِش ہوئی حیات ہوئی
تھی ایک کاوِشِ بے نام دل میں فطرت کے
سوا ہوئی تو وہی آدمی کی ذات ہوئی
بہت دِنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری، وہ رات رات ہوئی
فراق کو کبھی اِتنا خموش دیکھا تھا
ضرور اے نِگہِ ناز کوئی بات ہوئی
حیاتِ تازہ سے لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت
کہا تو روٹھ گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی
حیات، رازِ سکوں پا گئی، ازل ٹھہری
ازل میں تھوڑی سی لرزِش ہوئی حیات ہوئی
تھی ایک کاوِشِ بے نام دل میں فطرت کے
سوا ہوئی تو وہی آدمی کی ذات ہوئی
بہت دِنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری، وہ رات رات ہوئی
فراق کو کبھی اِتنا خموش دیکھا تھا
ضرور اے نِگہِ ناز کوئی بات ہوئی
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment