Sunday, 1 December 2013

نہ چھوڑا دل کو اے کافر تیرے پیکان ایسے ہیں

نہ چھوڑا دل کو اے کافِر تیرے پیکان ایسے ہیں
خُدا کا گھر اُڑا لے جائیں، یہ مہمان ایسے ہیں
کرے گا بے وفائی مجھ سے تو سامان ایسے ہیں
تیری جانب سے مجھ کو وہم میری جان ایسے ہیں
فرشتہ کو پکڑ رکھیں تِرے دربان ایسے ہیں
خدا سے بھی نہیں ڈرتے یہ بے ایمان ایسے ہیں
اگر تُو بھی نکالے گا نہ نکلیں گے نہ نکلیں گے
مِرے ارمان اتنے ہیں، مِرے ارمان ایسے ہیں
رقیبوں کو محبت کا ہے دعویٰ اے تِری قدرت
یقیں ہے تم کو لو وہ بھی خدا کی شان ایسے ہیں
شرارت فتنہ اِک اِک بات میں ہے اُن کی اے قاصد
وہ بھولے بھالے کم سِن ایسے ہیں نادان ایسے ہیں
یہ سر کے ساتھ جائینگے۔ یہ دم کے ساتھ جائینگے
ہمارے سر پہ آصف جاہ کے احسان ایسے ہیں
بنائیں اور باتیں آپ اُن سے کیا غرض مطلب
یہ چُن لیتے ہیں مطلب کی ہمارے کان ایسے ہیں
وہ جلوہ دیکھتے ہی آ گیا غش مجھ کو دعویٰ تھا
خطا ہوتی نہیں ہرگز مِرے اوسان ایسے ہیں
یقیں ہم کو دلاتے ہیں وہ یوں جُھوٹی قسم کھا کر
نہ ٹوٹیں حشر تک یہ عہد، یہ پیمان ایسے ہیں
رقیبوں کو بٹھا کر بزم میں کہتے ہیں وہ مجھ سے
جواب ان کا نہیں دیکھو مِرے مہمان ایسے ہیں
تمھارا ساتھ دیں گے حشر میں یہ بھی یقین جانو
تمھارے جاں نثاروں میں بہت انسان ایسے ہیں
کہیں لُٹوا دیا جوبن، کہیں چروا دیا دل کو
بھرے جائیں نہ تجھ سے بھی تِرے نقصان ایسے ہیں
تِری تصویر بھی آئینہ بھی عاشق کی آنکھیں بھی
کسی میں دم نہیں محفل میں یہ حیران ایسے ہیں
بہارِ باغِ عالم ہم نے لوٹی داغؔ مدت تک
کوئی دن کی ہوا کھاتے ہیں اب سامان ایسے ہیں

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment