Monday 2 December 2013

کس کس ادا سے ان سے نہ تھی بات کی جناب

کِس کِس ادا سے ان سے نہ تھی بات کی جناب
 بنتی اگر جو بات، تو کیا بات تھی جناب
ہو کر جُدا نہ دے ہے تکلّف مِزاج سے
اب تک وہ گفتگو میں کریں آپ، جی، جناب
بارآور آپ پر نہ ہوں کیوں کوششیں مِری
کب تک یہ بے ثمر سی رہے آشتی جناب
جاتے نہ کیسے اُن کے بُلانے پہ ہم بَھلا
موضوعِ گفتگو پہ کہا 'عاشقی جناب'
کب تھا میں اِضطراب و غمِ ہجر آشنا
جب تک کہ آپ سے تھی فقط دوستی جناب
جانے کہاں گئی ہے، خُوشی چھوڑ کر مجھے
کل تک تو ہر قدم وہ مِرے ساتھ تھی جناب
للچائے کیوں نہ جی ہر اک اچھی سی چیز پر
شامل ہے یہ سرِشت میں، ہُوں آدمی جناب
پُختہ یقین ہے کہ یہ جب تک جہان ہے
گونجے گی کُو بہ کُو یہ مِری نغمگی جناب
احساس، رنجِ مرگ پہ غالب ہے یہ خلشؔ
زندہ اگر نہ میں تو مِری شاعری جناب

شفیق خلش

No comments:

Post a Comment