Monday, 2 December 2013

ادا کردار کس کو کون سا کرنا ہے لکھا جا چکا ہے

ادا کردار کس کو، کون سا، کرنا ہے لِکھا جا چُکا ہے
کہ صدیوں پہلے ہی اِک جنگ کے بارے میں سوچا جا چُکا ہے
زمین تیری تپِش کم ہونے میں اب ہے ذرا سی دیر باقی
کمانوں کو حدِ اِمکان تک میداں میں کھینچا جا چُکا ہے
بگولے حلقہ باندھے بَین کرتے ہیں اَلَم کی سَرزمیں پر
سِنانِ ظُلم کو غُربت کے سینے میں اُتارا جا چُکا ہے
فلک والے بھی دیکھیں گے لگائیں گے گَلے سے آگے بڑھ کر
کہ تِیروں کی سِفارت کو کمیں گاہوں سے بھیجا جا چُکا ہے
تو باقی ماندہ لاشوں کو کرو پامال، جلدی سے سپاہیو
سَروں کی فَصل کو کندھوں کے اوپر سے تو کاٹا جا چُکا ہے
اُفق پر موت سے پہلے کی زردی پھیلتی ہی جا رہی ہے
لہُو جتنا بھی مُمکن تھا، رگِ جاں سے نچوڑا جا چُکا ہے

 عارف خواجہ

No comments:

Post a Comment