Monday, 2 December 2013

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا

خلق کہتی ہے جسے دل تِرے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
اک معمہ ہے سمجھنےکا نہ سمجھا نے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مِرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مِرے غم خانے کا
اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھا تِرے مستانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا
وحدتِ حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا
چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گلرنگ
دل مِرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا
لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
کُن ہے اندازِ رقم حسن کے افسانے کا
کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا
ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment