Monday 2 December 2013

شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا

شمعِ مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
تم جس پہ رو رہے تھے یہ کِس کا مزار تھا
تڑپوں گا عمر بھی دلِ مرحوم کے لیے
کمبخت نامراد، لڑکپن کا یار تھا
سودائے عشق اور ہے، وحشت کچھ اور شے
مجنُوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے، مجھے اعتبار تھا
کیا کیا ہمارے سجدے کی رُسوائیاں ہوئیں
نقشِ قدم کسی کا سرِ رہگزار تھا
اس وقت تک تو وضع میں آیا نہیں ہے فرق
تیرا کرم شریک جو پروردگار تھا
بیخودؔ خیال کی وہ بلندی کہاں گئی
شہبازِ فکر آپ کا عنقا شکار تھا

بیخود دہلوی

No comments:

Post a Comment