Monday, 2 December 2013

اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے

اُٹھے تِری محفل سے تو کِس کام کے اُٹھے
دل تھام کے بیٹھے تھے، جگر تھام کے اٹھے
دم بھر مِرے پہلُو میں اُنہیں چین کہاں ہے
بیٹھے، کہ بہانے سے کسی کام کے اٹھے
افسوس سے اغیار نے کیا کیا نہ مَلے ہاتھ
وہ بزم سے جب ہاتھ مِرا تھام کے اٹھے
دنیا میں کسی نے بھی یہ دیکھی نہ نزاکت
ان سے نہ کبھی حرف مِرے نام کے اٹھے
جو ظلم و ستم تم نے کئے، سب وہ اٹھائے
اک رنج والم ہم سے نہ اِلزام کے اٹھے
صدمے تو بہت قید میں جھیلے مِرے دل نے
جھونکے نہ مگر زلفِ سیاہ فام کے اٹھے
ہے رشک کہ یہ بھی کہیں شیدا نہ ہوں اس کے
تُربت سے بہت لوگ مِرے نام کے اٹھے
افسانۂ حسن اس کا ہے ہر ایک زباں پر
پردہ نہ کبھی جس کے در و بام سے اٹھے
آغازِ محبت میں مزے دل نے اٹھائے
پوچھے تو کوئی، رنج بھی اِلزام کے اٹھے
دل نذر میں دے آئے اسی شوخ کو بیخودؔ
بازار میں جب دام نہ اس جام کے اٹھے

بیخود دہلوی

No comments:

Post a Comment