Monday 2 December 2013

مرحلے شوق کے دشوار ہوا کرتے ہیں

مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خُوددار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رَستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کِرن جن کو رُلا دیتی ہے 
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جنکی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
درحقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسنؔ
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment