Monday, 2 December 2013

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذِیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مِرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی مِرے ہرجائی کی
تیرا پہلو، تِرے دل کی طرح آباد ہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسِیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment