Monday 2 December 2013

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

تیری گُفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے
کبھی جھانکا تِری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے
لمس کے دَم سے بصارت بھی، بصیرت بھی مِلی
چُھو کے دیکھا تو جو پتھر تھے، نِرے ریشم تھے
تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں
میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے
برف گرماتی رہی، دھُوپ اماں دیتی رہی
دل کی نگری میں جو موسم تھے، تِرے موسم تھے
مِری پُونجی مِرے اپنے ہی لہُو کی تھی کشِید
زندگی بھر کی کمائی میرے اپنے غم تھے
آنسوؤں نے عجب انداز میں سَیراب کِیا
کہیں بِھیگے ہوئے آنچل، کہیں باطن نَم تھے
جن کے دامن کی ہَوا میرے چراغوں پہ چلی
وہ کوئی اور کہاں تھے، وہ مِرے ہمدم تھے
میں نے پایا تھا بس اتنا ہی صداقت کا سُراغ
دُور تک پھیلتے خاکے تھے، مگر مبہم تھے
میں نے گِرنے نہ دِیا مر کے بھی معیارِ وقار
ڈُوبتے وقت مِرے ہاتھ مِرے پرچم تھے
میں سرِ عرش بھی پہنچا تو سرِ فرش رہا
کائناتوں کے سب اِمکاں مِرے اندر ضَم تھے
عُمر بھر خاک میں جو اشک ہوئے جذب ندیمؔ
برگِ گُل پر کبھی ٹپکے تو وہی شبنم تھے

احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment