مسرّتوں کو یہ اہلِ ہوَس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں تَرے غم کو بھی سمو دیتے
کہاں وہ شب کہ تِرے گیسوؤں کے سائے میں
خیالِ صُبح سے ہم آستِیں بِھگو دیتے
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کیلئے
بچا لیا مجھے طُوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفِینہ مِرا ڈبو دیتے
جو دیکھتے مِری نظروں پہ بندشوں کے سِتم
تو یہ نظارے مِری بے بسی پہ رو دیتے
کبھی تو یوں بھی اُمنڈتے سرشکِ غم مجروحؔ
کہ میرے زخمِ تمنّا کے داغ دھو دیتے
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment