Monday 9 December 2013

میں مطمئن تھا کہ اظہر چلا گیا ہے کہیں

میں مطمئن تھا کہ اظہر چلا گیا ہے کہیں
یہ شخص تو میرے اندر چھپا ہوا ہے کہیں
میں شعر کہتا ہوں اب بھی تو اس کا مطلب ہے
کوئی دریچۂ خوشبو ابھی کھلا ہے کہیں
اجڑتے شہر تجھے دیکھ کر لگا ہے مجھے
کہ جیسے پہلے بھی یہ سانحہ ہوا ہے کہیں
یہ میرا دل جو اچانک دھڑکنے لگتا ہے
تو کوئی ہے جو مجھے اب بھی سوچتا ہے کہیں
یقیں دلا کے چلا تھا جو ساتھ دینے کا
وہ اب کی بار بھی رستے میں رہ گیا ہے کہیں
کبھی کبھی جو میں بے وزن ہونے لگتا ہوں
تو پھر تو یوں ہے کہ مجھ میں کوئی خلا ہے کہیں
وہ اطمینان سے سوتا ہے رات بھر اظہرؔ
اسے پتا ہے کہ اک شخص جاگتا ہے کہیں

اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment