Monday, 9 December 2013

جو ہر مقام پر تجھے وحشت میں چھوڑ دے

جو ہر مقام پر تجھے وحشت میں چھوڑ دے
اک دن اسے بھی غم کی مسافت میں چھوڑ دے
خوش آ گئی ہے لذتِ سنگِ سخن مجھے
اے دوست مجھ کو کوئے ملامت میں چھوڑ دے
میں ایسا جنگ جُو ہوں جو میدانِ جنگ میں
دشمن کو زیر کر کہ مروّت میں چھوڑ دے
اُس کا مزاج ہے یہ اُسی کا مزاج ہے
نفرت میں ساتھ رکھ لے محبت میں چھوڑ دے
اس کھوکھلے سماج سے ہونے دے آشنا
کچھ روز اس کو کوچۂ شہرت میں چھوڑ دے

خالد شریف

No comments:

Post a Comment