Wednesday 4 December 2013

صورت ارض سماوات میں اپنے لیے بھی

صورتِ ارض سماوات میں اپنے لیے بھی
اِک ستارہ کہیں اس رات میں اپنے لیے بھی
نِگہ رہتی ہے تِرے سولہ سنگھاروں کی طرف
ہو اشارہ جو کسی بات میں اپنے لیے بھی
جانے کس رُوپ کرے گھات عدوئے اذلی
سات کنکر ہیں مِرے ہات میں اپنے لیے بھی
تم چلے آئے کہاں جائے اماں کی دُھن میں
ایک دُنیا ہے اِدھر گھات میں اپنے لیے بھی
میرے سب بھید کہاں کھولے ہیں اُس نے مجھ پر
ہیں نہاں خانے مِری ذات میں اپنے لیے بھی
کیا ہے اس کے لیے جب چاہے بدل دے قسمت
جیت رکھ دے جو کسی مات میں اپنے لیے بھی
اے مِری عمر کی تنہائی تِرے ساتھ ہوں میں
ہاتھ تھاما ہے تِرا ہات میں اپنے لیے بھی
تیرے لہجے میں ابھی تک ہے وہی قند و گلاب
اِک سخن لائے جو سوغات میں اپنے لیے بھی
"رحمتیں ہیں تِری اغیار کے کاشانوں پر"
ایک بدلی کسی برسات میں اپنے لیے بھی

طارق بٹ

No comments:

Post a Comment