Wednesday 4 December 2013

یہ جاں کہ فرصت غم سے بھی ہاتھ دھو گئی ہے

یہ جاں کہ فرصتِ غم سے بھی ہاتھ دھو گئی ہے
 بھلا چکی تھی تجھے، آج خود کو رو گئی ہے
 ہمیں بھی تجھ سا تغافل شعار بننا تھا
 یہ بات کاش نہ ہوتی، مگر یہ ہو گئی ہے
 بہت سے دن گئے وہ رُت نہ لوٹ کر آئی
 جو آئی جب کبھی، دامن بھگو بھگو گئی ہے
اسی نِگہ نے کِیا دل کو خانۂ بے نُور
 پلک پلک پہ جو اتنے چراغ بو گئی ہے
 میں ڈھونڈتا ہوں اسے ہر کسی کی آنکھوں میں
 وہ اک نگاہِ توجہ، کہیں جو کھو گئی ہے
چھلک پڑی جو کوئی آنکھ اپنے غم پہ کبھی
 تو جانے کتنے ہی چھاتی کے داغ دھو گئی ہے
 کہو کہ پرسشِ احوال یُوں بھی ہوتا ہے
 اُچٹتی سی یہ نِگہ اس طرف جو ہو گئی ہے

 طارق بٹ

No comments:

Post a Comment