Sunday 8 December 2013

میں نے آغاز سے انجام سفر جانا ہے

میں نے آغاز سے انجامِ سفر جانا ہے 
سب کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے 
غم وہ صحرائے تمنا کہ بگولے کی طرح
جس کو منزل نہ ملی اس کو بکھر جانا ہے 
تیری نظروں میں مِرے درد کی قیمت کیا تھی
میرے دامن نے تو آنسو کو گْہر جانا ہے 
تیز سورج میں چلے آتے ہیں میری جانب 
دوستوں نے مجھے صحرا کا شجر جانا ہے 
زندگی کو بھی تِرے دَر سے بِھکاری کی طرح
ایک پل کے لئے رکنا ہے گزر جانا ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment