Sunday 8 December 2013

کوئی شام ایسی بھی شام ہو کہ ہو صرف میرے ہی نام سے

کوئی شام ایسی بھی شام ہو کہ ہو صرف میرے ہی نام سے
میرے سامعیں ہوں شگفتہ دل، مِرے دل گداز کلام سے
مِری گفتگو کے گلاب سے ہوں دلوں میں ایسی شگفتگی
کوئی ایسی نکہتِ خاص ہو کہ مہک اُٹھے در و بام سے
کوئی رنگ ان میں مَیں کیا بھروں، انہیں یاد رکھ کے بھی کیا کروں
یہ جو بِھیڑ بھاڑ میں شہر کی مجھے لوگ ملتے ہیں عام سے
مِری رات میری حبیب ہے یہ بڑی عجیب و غریب ہے
مِرے ساتھ چھوڑ دیا کرو مِرے ہمنشیں مجھے شام سے
میں محبتوں کا امین ہوں، میں دلوں کی رُت کا یقین ہوں
مجھے پیار کرتے ہیں اہلِ دل مِرے فن سے میرے کلام سے
مِری آرزو ہے کہ موم ہوں، کبھی ان کے دل بھی مِرے لئے
جنہیں بَیر ہے مِری ذات سے، جو ہیں بدگماں مِرے نام سے

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment