Sunday, 8 December 2013

روبرو وہ ہے عبادت کر رہا ہوں

رُوبرُو وہ ہے، عبادت کر رہا ہُوں
اُسکے چہرے کی تلاوت کر رہا ہوں
لو خریدو اِک نظر کے مول مجھ کو
اپنی قیمت میں رعایت کر رہا ہوں
لی ہے ضبط نے مجھ سے اجازت
اپنے مہمانوں کو رخصت کر رہا ہوں
چِھن گیا مُلکِ جوانی بھی تو کیا غم
اب بھی یادوں پر حکومت کر رہا ہوں
کوئی بھی غم اُس کو لوٹایا نہیں ہے
یُوں امانت میں خیانت کر رہا ہوں
اُس نے تو بس اک ذرا سی بات چھیڑی
میں وضاحت پر وضاحت کر رہا ہوں
عشق کر کے آپ بھی بن جائیں انساں
شیخ صاحب کو نصیحت کر رہا ہوں
عاشقی طوفانِ گریہ چاہتی ہے
اور میں آہوں پر قناعت کر رہا ہوں
آسماں جو شخص ہے سب کی نظر میں
اُس کو چُھو لینے کی جُرأت کر رہا ہوں
میں نے دیکھا ہے قتیلؔ اُس کا سراپا
میں کہاں ذکرِ قیامت کر رہا ہوں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment