Sunday, 8 December 2013

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال

گیت

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
ایک تُو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اُجلے رُوپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی جیسی چال
کِتنی سُندر نار ہو کوئی میں آواز نہ دوں
تجھ سا جس کا نام نہیں ہے وہ جی کا جنجال
سامنے تو آئے تو دھڑکیں مل کر لاکھوں دل
اب جانا، دھرتی پر کیسے آتے ہیں بھونچال
بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تُو ہی راہ نکال
کر سکتے ہیں چاہ تیری اب سرمد یا منصور
ملے کسی کو دار یہاں اور کھنچے کسی کی کھال
آج کی رات بھی ہے کچھ بھاری لیکن یار قتیلؔ
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال
یہ دُنیا ہے خُود غرضوں کی، لیکن یار قتیلؔ
تُو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment