Wednesday 4 December 2013

امید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

امید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں
حیاتِ عشق کی وہ صبح و شام بھی تو نہیں
بس اک فریبِ نظر تھا جمال گیسو و رخ
وہ صبح بھی تو نہیں اب وہ شام بھی تو نہیں
وفورِ سوزِ نہاں کا علاج کیوں کر ہو
جو لے سکے کوئی وہ تیرا نام بھی تو نہیں
انہیں محال ہے تمیزِ قید و آزادی
کہ تیرے صیدِ بلا زیردام بھی تو نہیں
دلِ حزیں میں تِرے شوق مضطر کے نثار
اس انجمن میں تجھے کوئی کام بھی تو نہیں
بیان ہو کیسے وہ دیرینہ ارتباطِ نہاں
کہ تجھ سے اگلے پیام و سلام بھی تو نہیں
وہ کیا کہیں کہ کبھی اہلِ شوق سے کھُل کر
ہوئی نگاہ تِری ہم کلام بھی تو نہیں
کبھی انہیں بھی زمانے میں تھی خوشی کی تلاش
اب اہلِ غم کو یہ سودائے خام بھی تو نہیں
نہ پوچھ ہجر کی حسرت کہ دور گردوں میں
سحر نہ ہو سکے جس کی وہ شام بھی تو نہیں
فراقؔ جلوۂ ساقی کے سب کرشمے تھے
کہ اب وہ رنگ مَے لالہ فام بھی تونہیں

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment