Monday 9 December 2013

بلوہ آ نینوں سے خوف مٹاؤں

بَلوا

آ نینوں سے خوف مِٹاؤں
ماتھے سے بارُود ہٹاؤں
جس شب مجھ سے تُو بچھڑا تھا
خُود کو یہیں پہ بُھول گیا تھا
آ میں تجھ سے تجھے مِلاؤں
بستی میں سب سوداگر ہیں
پورا لالچ، آدھا تول
تُو اِک پَل میں لُٹ جائے گا
تیرا مِن موتی اَنمول
بستی تَن کو لے جائے گی
یہاں سے مَن کو رَستا جائے
تُو ہم سب سے ڈرتا کیوں ہے
ہم سب کب ہیں آدمؑ جائے
ہم تیرے پہلے ہَمسائے
تیرے درد میں پَل پَل بے کَل
میں جنگل کی ہوا ہُوں، مت ڈر
ساتھ لِپٹ کر، ہاتھ پکڑ کر
پاؤں میں گِر کر عرض گذاروں
یہیں کہیں رُک جا او راہی
بستی کو مت جا
بھینٹ اَجل کی چڑھ جائے گا
موت کسی کی مر جائے گا
آدم، آدم کا بَیری ہے
آج کی رات بہت بھاری ہے
بَلوا بستی میں جاری ہے
جنگل میں رُک جا او راہی
جنگل سے مت جا

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment