Saturday 7 December 2013

فرصت میں اوپر والے کو دھیان جب آیا تیرا

فُرصت میں اُوپر والے کو دھیان جب آیا تیرا
چاند کی کِرنیں گوندھ کے اس نے جسم بنایا تیرا
میں دیوار سے کان لگا کر سنتا دھڑکن تیری
کاش مجھے تقدیر بنا دیتی ہمسایہ تیرا
شانے تیرے چاندی چاندی، زُلفیں سونا سونا
چور بنا دیتا ہے سب کو یہ سرمایہ تیرا
سمجھ گیا وہ، میں ہی لِپٹا ہوں تیرے قدموں سے
چاندنی راتوں میں جس نے بھی دیکھا سایہ تیرا
قطرہ قطرہ پِگھل رہی تھی برف میرے اندر کی
سردی نے جس رات بدن مجھ کو پہنایا تیرا
یہ تیری بادامی آنکھیں شانت سمندر جیسی
ان میں ڈُوب کے بھی میں نے کوئی بھید نہ پایا تیرا
ملکوں ملکوں ہوئے قتیلؔ کچھ اور بھی اسکے چرچے
شہر کے لوگوں سے جب اس نے پیار چُھپایا تیرا


قتیل شفائی 

No comments:

Post a Comment