Sunday, 12 January 2014

آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے

آئے تو میری روح کو تڑپا کے چل دیئے
اُلفت کی اِک شراب سی برسا کے چل دیئے
ان کے حجاب میں نہ کوئی بھی کمی ہوئی
میری نگاہِ شوق کو ترسا کے چل دیئے
تقدیر اس کو کہتے ہیں، قسمت ہے اس کا نام
تسِکین دینے آئے تھے، تڑپا کے چل دیئے
آئے تو تھے کہ درد مٹا دیں گے قلب کا
دیکھا جو حال غیر تو گھبرا کے چل دیئے
آنکھوں میں کچھ حسِین سے آنسُو بھرے ہوئے
چُپکے سے آئے اور مجھے سمجھا کے چل دیئے
ان سے کسی اُمید کا رکھنا فضول ہے
میرے دلِ غریب کو ٹُھکرا کے چل دیئے
اوروں کو بھر کے دے دیئے جامِ شرابِ ناب
اور مجھ کو رازِ مئے کدہ سمجھا کے چل دیئے
جب داستانِ عشق مری ختم ہو گئی
بَل کھا کے چل دیئے، کبھی شرما کے چل دیئے
میں نے جو یہ کہا کہ اب آنا تو ہو چکا
بہزادؔ میرے سَر کی قسم کھا کے چل دیئے​

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment