Sunday, 12 January 2014

بے ہوش ہوں کہ ہوش میں اب آ رہا ہوں میں

بے ہوش ہوں کہ ہوش میں اب آ رہا ہوں میں
ہر چیز میں جہاں کی، تمہیں پا رہا ہوں میں
پروردگار! اب مِری توبہ کی خیر ہو
کالی گھٹا کو دیکھ کے تھرّا رہا ہوں میں
رکھ کر کسی کے پائے حسِیں پر جبِینِ عِجز
دل میں عبودیت کی تڑپ پا رہا ہوں میں
میری فضائے ہوش پہ چھا جا جمالِ دوست
اپنے کو آج ہوش میں کچھ پا رہا ہوں میں
اُن کی نظر کا آہ، ابھی تک خیال ہے
اُن کی نظر کے واسطے گھبرا رہا ہوں میں
ہے کیفِ دردِ دوست فقط میرے واسطے
ہر چیز کو جہان کی ٹُھکرا رہا ہوں میں
اس کی خبر نہیں ہے کہ منزل ہے کس طرف
احساس اس قدر ہے کہ ہاں جا رہا ہوں میں
میں نے تو ہائے مشقِ تصوّر بھی چھوڑ دی
اپنے سے کیوں قریب تجھے پا رہا ہوں میں
سمجھا رہا ہے کوئی یہ مجھ کو خبر نہیں
سمجھا رہے ہیں آپ کہ سمجھا رہا ہوں میں
ہمّت بڑھا ذرا مِری اے ذوقِ جُستجُو
منزل سے بے نیاز چلا جا رہا ہوں میں
دامن کو کر رہا ہوں جو بہزادؔ چاک چاک
یوں گُتھیوں کو عشق کی سُلجھا رہا ہوں میں​ 

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment