نہ لغزشوں سے نہ دل سے نہ راہبر سے ملا
مِرے جنوں کو سہارا تِری نظر سے ملا
فراقِ دوست میں پھر زندگی ہی کام آئی
سکوں ملا تو پھر اپنے ہی دردِ سر سے ملا
حدودِ حسن سے بچ کر گزر سکا نہ جنوں
نہ یادِ گُل سے نہ ذکرِ چمن سے جی بہلا
سکوں قفس میں کچھ احساسِ بال و پر سے ملا
جدا جدا تھے مقاصد، الگ الگ راہیں سے ملا
ہم ہمسفر سے ملا، دل نہ راہبر سے ملا
شبِ سیاہ کو تقدیرِ آرزو نہ سمجھ
تُو اپنی شام کا دامن کبھی سحر سے ملا
لگی تھی آگ مِرے آشیاں کو جس سے قمرؔ
اجالا اہلِ چمن کو اسی شرر سے ملا
قمر مرادآبادی
No comments:
Post a Comment