Sunday 18 October 2015

حسرت رہی کوئی یہاں دیدہ ور ملے

حسرت رہی کوئی یہاں دِیدہ ور مِلے
لیکن تِری گلی میں سبھی کم نظر مِلے
ایسے بھی آشنا ہیں نہ دیکھا جنہیں کبھی
نا آشنا تھے وہ بھی جو شام و سحر مِلے
شاید اس لیے ہمیں منزل نہ مِل سکی
جتنے بھی ہم کو لوگ مِلے، راہبر مِلے
لکھی تھیں جن پہ اپنے جنوں کی حکایتیں
آوارگی میں ایسے بھی کچھ بام و در مِلے
کیا کیا نظر نظر میں ہوئی گفتگو نہ پوچھ
مدت کے بعد جب وہ سرِ رہ گزر مِلے
ہم کو تو داغِ دل کے سوا کچھ نہ مِل سکا
ان بستیوں میں پیار کسی کو مگر مِلے
جالبؔ ہوائے لعل و گہر تھی، نہ آج ہے
وہ سنگِ در عزیز ہے وہ سنگِ در مِلے

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment