Tuesday 13 October 2015

سمجھوتہ: خوشحال سے تم بھی لگتے ہو

سمجھوتا

خُوشحال سے تم بھی لگتے ہو 
یوں افسُردہ تو ہم بھی نہیں
پر جاننے والے جانتے ہیں
خُوش تم بھی نہیں، خُوش ہم بھی نہیں
تم اپنی خُودی کے پہرے میں
ہم اپنے زُعم کے نرغے میں
انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
اِک مُدت سے غلطاں پیچاں
ہم اپنے آپ سے اُلجھے ہوئے
پچھتاووں کے انگاروں میں
محصُورِ تلاطم آج بھی ہیں
گو تُم نے کنارے ڈُھونڈ لیے
طُوفاں سے سنبھلے ہم بھی نہیں
کہنے کو سہارے ڈُھونڈ لیے
خاموش سے تم، ہم مُہر بہ لَب
جُگ بِیت گئے، ٹُک بات کیے
سنو کھیل ادھُورا چھوڑتے ہیں
بِنا چال چلے، بِنا مات دیئے
جو چلتے چلتے تھک جائیں
وہ سائے رُک بھی سکتے ہیں
چلو توڑو قسم، اقرار کریں
ہم دونوں جھُک بھی سکتے ہیں

خلیل اللہ فاروقی

No comments:

Post a Comment