Tuesday 13 October 2015

بزم جنوں میں ایسے بھی کچھ لوگ مل گئے

بزمِ جنوں میں ایسے بھی کچھ لوگ مِل گئے
ہم شاد کام آئے تھے، اور مُضمحل گئے
صد رنگ رنگ محفلِ ہنگامہ و نِشاط
آباد جن کے دَم سے تھی وہ اہلِ دِل گئے
وہ لمحۂ سُرور کہ محسوس یوں ہوا
جیسے ہمارے کھوئے ہوئے خواب مِل گئے
جب بھی ہَوا کے دوش پہ آیا تمہارا نام
ایسا لگا کہ رُوح میں کچھ پھُول کِھل گئے
کیوں تھک کے سو گیا ہے نئی زندگی کے خواب
کیا ہم تک آتے آتے تِرے پاؤں چِھل گئے
جب بھی کسی نے پوچھ لیا مُسکرا کے حال
گویا دلِ شِکستہ کے سب چاک سِل گئے
کیوں مُضطرب ہے ٹُوٹ کے نوعمر سا درخت
آںدھی وہ آئی ہے کہ سبھی پیڑ ہِل گئے

خلیل اللہ فاروقی

No comments:

Post a Comment