Tuesday 13 October 2015

تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا

تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
کسی گُلاب کو ٹہنی سے توڑ کر بھی نہیں
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
سُبک کلائی میں گجرے کبھی پہنتے ہوئے
گُلاب ہاتھوں پہ مہندی کبھی لگاتے ہوئے
سفید دُودھیا آنچل کو زرد رنگتے ہوئے
گُلال مَلتے ہوئے چوڑیاں پہنتے ہوئے
چمکتے ماتھے پہ بِندیا کبھی سجاتے ہوئے
سنور کے دیر تک آئینے کو تکتے ہوئے
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
کسی کبوترِ گرداں کو دیکھ کر بھی نہیں
کبھی دِیا کسی درگاہ پر جلاتے ہوئے
کسی دُکان پہ ساڑھی پسند کرتے ہوئے
لچکتی شاخ پہ پہلا گُلاب لگتے ہوئے
کبھی یونہی کسی مخصوص دُھن کو سُنتے ہوئے
کبھی کبھی یونہی کوئی کِتاب پڑھتے ہوئے
برستے ابر میں چھت پہ کبھی نہاتے ہوئے
کسی سہیلی سے ہنستے سَمے لِپٹتے ہوئے
کسی خیال میں بیٹھے سے اُٹھ کے چلتے ہوئے
کسی بھی رات کو اُٹھ کر یونہی ٹہلتے ہوئے
اکیلے دُور تک خامشی میں چلتے ہوئے
خلا کی ذات کی بے آسرا بھٹکتے ہوئے
کسی پہاڑ پہ تنہا سنبھل کے چڑھتے ہوئے
اُترتے چاند کا موجوں میں عکس پڑتے ہوئے
کبھی لباس پہ خُوشبو کوئی لگاتے ہوئے
فضا میں سُوکھے پتّوں کا شور سُنتے ہوئے
مِٹے ہوئے سے درختوں پہ نام پڑھتے ہوئے
کسی بھی روز یونہی گھر کے کام کرتے ہوئے
اذان ہوتے ہی آنچل سے سر کو ڈھکتے ہوئے
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
کسی گُلاب کو ٹہنی سے توڑ کر بھی نہیں
کسی کبوترِ گرداں کو دیکھ کر بھی نہیں
کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر بھی نہیں
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا
تو کیا

خلیل اللہ فاروقی

No comments:

Post a Comment