محبت میں شبِ تاریکِ ہجراں کون دیکھے گا
ہم ہی دیکھیں گے، یہ خواب پریشاں کون دیکھے گا
ان آنکھوں سے تجلی کو درخشاں کون دیکھے گا
اٹھا بھی دو نقاب روئے تاباں کون دیکھے گا
یہی اک رات ہے بس کائناتِ زندگی اپنی
سحر ہوتی ہے اے شامِ ہجراں کون دیکھے گا
بنے پھرتے ہو یوسفؑ، شام زنداں کون دیکھے گا
حقیقت کا تقاضا بھی یہی ہے پردہ داری کا
رہو تم آنکھ کے پردوں میں پنہاں کون دیکھے گا
کچھ ایسا ہو دمِ آخر نہ آئیں وہ عیادت کو
انہیں اپنے کیے پہ یوں پشیماں کون دیکھے گا
مجھی پر آئے گا الزام میری پائمالی کا
تِری رفتار کو اے فتنہ ساماں کون دیکھے گا
یہی اب بھی صدائیں آتی ہیں وادئ ایمن سے
کہاں ہیں طالبِ دیدارِ جاناں، کون دیکھے گا
عذابِ حشر سے تُو کیوں ڈراتا ہے مجھے واعظ
تجھے معلوم ہے فردِ عصیاں کون دیکھے گا
یہ دنیا ہے ہنسا کرتی ہے اوروں کی مصیبت پر
تِرا رونا یہاں اے چشمِ گِریاں کون دیکھے گا
چلو مخمورؔ تنہائی میں شغلِ مے کشی ہو گا
چھپا کر لے چلو پینے کا ساماں، کون دیکھے گا
مخمور دہلوی
No comments:
Post a Comment