Thursday 15 October 2015

مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے

مِرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمُو کی ہے
کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بُوند لہُو کی ہے
کبھی چاک خُوں سے چپک گیا کبھی خار خار پِرو لیا
مِرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بھی تو رفُو کی ہے
نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ وہ باغ کے
جنہیں ذکر قید و قفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلُو کی ہے
یہی راہگزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا
یہ چمن سے تا بہ درِ قفس جو لکیر میرے لہُو کی ہے
نہ جنُوں نہ شورِ جنُوں رہا تِرے وحشیوں کو ہوا ہے کیا
یہ فضائے دہر تو منتظر فقط ایک نعرۂ ہُو کی ہے
ہمیں عمر بھر بھی نہ مِل سکی کبھی اک گھڑی بھی سکون کی
دلِ زخم زخم میں چارہ گر کوئی اک جگہ بھی رفُو کی ہے؟
تِری چشمِ مست نے ساقیا وہ نظامِ کیف بدل دیا
مگر آج بھی سرِ میکدہ، وہی رسم جام و سبُو کی ہے
میں ہزار سوختہ جاں سہی، مِرے لب پہ لاکھ فغاں سہی
ابھی ناامیدِ عشق نہ ہو ابھی دل میں بُوند لہُو کی ہے
ابھی رِند ہے ابھی پارسا تجھے تابشؔ آج ہُوا ہے کیا
کبھی جستجو مے و جام کی کبھی فکر آب و وضُو کی ہے

تابش دہلوی

No comments:

Post a Comment