Thursday 15 October 2015

بار حیات اٹھائیے تنہا اٹھائیے

بارِ حیات اٹھائیے، تنہا اٹھائیے
یہ بوجھ آپ سے نہیں اٹھتا اٹھائیے
وحشت میں خاک اڑانی ہی مقسوم ہے تو پھر
اک مشتِ خاک کیا سرِ صحرا اٹھائیے
ان خفتگانِ راہ کو ہمراہ لے چلیں
قدموں کے ساتھ نقشِ کفِ پا اٹھائیے
بیمارِ عصر جلد شفایاب ہو سکیں
گہوارے سے اک اور مسیحا اٹھائیے
دل میں نفاذِ شوق کی طاقت کہاں سے لائیں
کوزے میں کیا تلاطمِ دریا اٹھائیے
دنیا سے زندگی کا بڑا حوصلہ ملا
احساں کی طرح ہر غمِ دنیا اٹھائیے
نادیدہ منظروں کو اگر چاہیں دیکھنا
اپنی ہی ذات سے کوئی پردہ اٹھائیے
پا مردیوں سے گزرے ہیں جو راہِ شوق میں
پلکوں سے ان کی نقشِ کفِ پا اٹھائیے
تابشؔ سہارا لیجیے نہ امید و بیم کا
تنہا کبھی حجابِ تمنا اٹھائیے

تابش دہلوی

No comments:

Post a Comment