Sunday 11 October 2015

حال دل میں نے جو دنیا کو سنانا چاہا

حالِ دل میں نے جو دنیا کو سنانا چاہا
مجھ کو ہر شخص نے دل اپنا دیکھانا چاہا
اپنی تصویر بنانے کے لیے دنیا میں
میں نے ہر رنگ پہ اک رنگ چڑھانا چاہا
خاکِ دل جوہرِ آئینہ کے کام آ ہی گئی
لاکھ دنیا نے نگاہوں سے گرانا چاہا
شعلۂ برق سے گلشن کو بچانے کے لیے
میں نے ہر آگ کو سینے میں چھپانا چاہا
اپنے عیبوں کو چھپانے کے لیے دنیا میں
میں نے ہر شخص پہ الزام لگانا چاہا
غیرتِ موج اسے پھینگ گئی ساحل پر
ڈوبنے والے نے جب شور مچانا چاہا

کرار نوری

No comments:

Post a Comment