درد کے شہر سے ہجرت کی دعا مانگتا ہے
دل رسولوں کی طرح ارضِ وفا مانگتا ہے
آزمائش سے گزرنے کی نہیں ہے ہمت
معجزوں کے لیے ہر شخص عصا مانگتا ہے
میرے اللہ! مِرے فن کو نہیں اور طلب
بے نواؤں کے لیے حرفِ نوا مانگتا ہے
اپنی خودداری ہے محفوظ پھٹے کپڑوں میں
ورنہ، ہر پیڑ ہی موسم سے قبا مانگتا ہے
اپنی مرضی سے کنارے پہ میں جاؤں کیسے
ناخدا میرا ہواؤں سے رضا مانگتا ہے
اپنے اجداد کی تقلید بھی کرتا ہے، مگر
کچھ انیسؔ اپنے لیے رنگ نیا مانگتا ہے
دل رسولوں کی طرح ارضِ وفا مانگتا ہے
آزمائش سے گزرنے کی نہیں ہے ہمت
معجزوں کے لیے ہر شخص عصا مانگتا ہے
میرے اللہ! مِرے فن کو نہیں اور طلب
بے نواؤں کے لیے حرفِ نوا مانگتا ہے
اپنی خودداری ہے محفوظ پھٹے کپڑوں میں
ورنہ، ہر پیڑ ہی موسم سے قبا مانگتا ہے
اپنی مرضی سے کنارے پہ میں جاؤں کیسے
ناخدا میرا ہواؤں سے رضا مانگتا ہے
اپنے اجداد کی تقلید بھی کرتا ہے، مگر
کچھ انیسؔ اپنے لیے رنگ نیا مانگتا ہے
انیس دہلوی
No comments:
Post a Comment